سوات کے عوام کے خلاف جاری امریکی جنگ کے خلاف آواز بلند کرنے پر حزب التحریر کے پانچ کارکنوں کو لاہور اور کراچی میں گرفتار کر لیا گیا
پاکستان کی جمہوری حکومت نے حزب التحریر کے پانچ کارکنوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت پرچہ درج کر لیا ہے۔ ان کارکنوں کا گناہ محض یہ ہے کہ وہ سوات کے عوام کے خلاف جاری آگ اور بارودکی بارش کو روکنے کے لئے عوام میں رائے عامہ بنا رہے تھے۔ پولیس نے جمعرات کے دن لاہور کے علاقے غالب مارکیٹ سے حزب کے ممبر شہزاد کریم اور عبداللہ عرفات کو دن دیہاڑے اٹھاکر کے تھانے میں بند کر دیا جہاں ان سے ان کے وکیل نے بھی ملاقات کی لیکن پولیس نے پرچہ کاٹنے کے بجائے رات گئے انہیں خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کر دیا۔ اگلے دن عدالت میں پیش کرنے کے بجائے پولیس انہیں حراساں کرتی رہی اور انہیں قتل کی دھمکیا ں تک دی گئیں۔ ان کی بازیابی کے لئے بیلف نے مختلف تھانوں میں چھاپے مارے لیکن پولیس انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی رہی۔ بالآخر ہفتہ کے روز پولیس نے انہیں دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر کے ان کے خلاف سات دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا۔ ہم ”آزاد عدالت“ سے پوچھتے ہیںکہ آخر ان پڑھے لکھے داعیانِ اسلام کو کرپٹ پولیس کی کسٹڈی میں دینے کا کیا مقصد تھا؟ کیا انہوں نے کوئی چوری کی تھی، ڈاکہ ڈالا تھا یا کسی کا قتل کیا تھا؟ ہم حکومت کو خبردار کرتے ہیںکہ جسمانی ریمانڈ کے دوران ان کارکنوں پر کسی بھی قسم کا تشدد کیا گیا تو ذمہ دار حکومت ہوگی۔ دوسری طرف کراچی کے علاقے ملیر میں لیاقت مارکیٹ سے حزب التحریر کے تین کارکنوں ارسلان قمر، شفاعت علی خان اور عمر خان کو ہفتہ کی شب گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر بھی بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جبکہ یہ تینوں کارکن بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ پرامن شہری ہیں جو سوات کے عوام پر ہونے والے ظلم کے خلاف کلمہ حق بلند کر رہ
746; تھے۔ آخر کیا فرق ہے مشرف کی ڈکٹیٹرشپ اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومتوں میں؟ کیا یہی ہے وہ برداشت، رواداری اور رائے کی آزادی جس کی جمہوری حکومت دعوے کرتی ہے؟ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی تمام کاروائیوں کو ”آزادی رائے“ کی آڑ میں عوام پر ڈنڈے سے ٹھونسہ جاتا ہے جبکہ حزب التحریر جیسی غیر عسکری جماعت پر دہشت گردی اور بغاوت کے جھوٹے مقدمات قائم کئے جاتے ہیں۔ عوام جان چکے ہیں کہ آمریت ہو یا جمہوریت، استعمار ان دونوں حکومتی نظاموں کے ذریعے نہ صرف کفر یہ سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے بلکہ اسلام کے نفاذ کی کوشش کرنے والی مخلص جماعتوں پر پابندیاں بھی لگا دیتا ہے۔ آج بھی حزب التحریر کی پابندی کے خلاف دائر رِٹ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ میں سماعت کی منتظر ہے جبکہ کہنے کو عدلیہ آزاد ہو چکی ہے۔ حکومت اس رِٹ کو گزشتہ تین سالوں سے التوا میں ڈالے ہوئے ہیں کیونکہ وہ جانتی ہے کہ وہ کسی بھی عدالت میں حزب التحریر کو دہشت گرد تنظیم ثابت نہیں کرسکتی۔ ہم حکومت کو بتا دینا چاہتے ہیںکہ حزب التحریر کو روکنے کے تمام ہتھکنڈے پہلے بھی ناکام ہو چکے ہیں اور عرب اور وسط ایشیا کی ریاستیں حزب پر پابندی لگا کر پہلے ہی اپنا شوق پورا کرچکی ہیں۔ لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود حزب التحریر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سیاسی پارٹی بن کر ابھری ہے جو 40 سے زائد ممالک میں خلافت کے قیام کے لئے متحرک ہے۔ حزب التحریر ایک بار پھر اعلان کرتی ہے کہ حزب کو گرفتاریوں یا پاندیوں سے روکا نہیں جاسکتا اور خلافت کے قیام کی بشارت نبوی ﷺ ضرور پوری ہو کر رہے گی اور حزب کے ممبران گویا اس کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان
22 Jumadal Al-Awwal 1430
17 May 2009